دم آخر صنم پھیرے ہیں آنکھیں بد گماں ہو کر
دم آخر صنم پھیرے ہیں آنکھیں بد گماں ہو کر
پھرے ہیں یہ مری آنکھوں کے تارے پتلیاں ہو کر
مری فریاد سن کر فصل گل میں شور کرتی ہیں
چمن میں بلبلیں نالاں ہیں میری ہم زباں ہو کر
گلے مل کر عروس تیغ سے یہ آبرو پائی
پڑے ہیں ہار زخموں کے گلے میں بدھیاں ہو کر
شب فرقت کوئی نالہ اگر منہ سے نکلتا ہے
فلک سے پھر کر آتا ہے بلائے ناگہاں ہو کر
ہوائے دید گل جوش جنوں میں بھی رہی باقی
گئے گستاخؔ صحرا کو تو سوئے بوستاں ہو کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.