دمکتا ہے سر نوک سناں کوئی ستارہ
دمکتا ہے سر نوک سناں کوئی ستارہ
ہمارا ہم نفس یا ہم زباں کوئی ستارہ
ہماری ہجرتوں کا خاتمہ ممکن نہیں ہے
ہمارے ساتھ ہے بے خانماں کوئی ستارہ
فقط آنکھیں چراغوں کی طرح سے جل رہی ہیں
کسی کی دسترس میں ہے کہاں کوئی ستارہ
ہم اپنی کھوج میں جس مرکزے کو جا رہے ہیں
ابھی پہنچا نہ ہو شاید وہاں کوئی ستارہ
ہمارے ہر طرف جو رات نے کھینچا ہوا ہے
اسی اک دائرے میں ہے رواں کوئی ستارہ
عجب کیا مشعلیں لے کر ہمارا منتظر ہو
پس دیوار شب گریہ کناں کوئی ستارہ
کسی کی چشم تر سے بے محابہ جھانکتا ہے
سمندر کی طرح سے بے کراں کوئی ستارہ
جہاں زور ہوا کشتی الٹنا چاہتا ہے
وہیں تھامے ہوئے ہے بادباں کوئی ستارہ
وہ رقص مرگ ہے لمحوں کی نبضیں ٹوٹتی ہیں
مگر اس رقص میں ہے خوش گماں کوئی ستارہ
زمیں تو پاؤں سے اطہرؔ نکلتی جا رہی ہے
سنبھالے اب زمام آسماں کوئی ستارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.