در و دیوار سے ڈر لگ رہا تھا
ترا گھر بھی مرا گھر لگ رہا تھا
اسی نے سب سے پہلے ہار مانی
وہی سب سے دلاور لگ رہا تھا
جسے مہتاب کہتا تھا زمانہ
ترے کوچے کا پتھر لگ رہا تھا
جگہ اب چھوڑ دوں بیٹے کی خاطر
وہ کل میرے برابر لگ رہا تھا
خبر کیا تھی بگولوں کا ہے مسکن
پرے سے تو سمندر لگ رہا تھا
چھلکتی تھی غزل ہر زاویے سے
ترا پیکر سخنور لگ رہا تھا
ٹھہرتا کون اک میرے علاوہ
وہاں تو داؤ پر سر لگ رہا تھا
تری یادوں کی رت آئی ہوئی تھی
یہ صحرا مور کا پر لگ رہا تھا
مرے دیوار و در بھی کاغذی تھے
گھٹا میں بھی سمندر لگ رہا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.