ڈرا رہا ہے مسلسل یہی سوال مجھے
ڈرا رہا ہے مسلسل یہی سوال مجھے
گزار دیں گے یوں ہی کیا یہ ماہ و سال مجھے
بچھڑتے وقت اضافہ نہ اپنے رنج میں کر
یہی سمجھ کہ ہوا ہے بہت ملال مجھے
وہ شہر ہجر عجب شہر پر تحیر تھا
بہت دنوں میں تو آیا ترا خیال مجھے
میں اس خیال سے جاتا نہیں عروج کی سمت
مباد گھیر لے تنہا کہیں زوال مجھے
ہر ایک شخص کا چہرہ خود اس کا چہرہ ہے
کہیں تو کوئی ملے آئنہ مثال مجھے
تو میرے خواب کو عجلت میں رائیگاں نہ سمجھ
ابھی سخن کہ امکاں سے مت نکال مجھے
کسے خبر کہ تا خاک آگ زندہ ہو
ذرا سی دیر ٹھہر اور دیکھ بھال مجھے
کہاں کا وصل کہ اس شہر پر فشار میں اب
ترا فراق بھی لگنے لگا محال مجھے
اسی کے دم سے تو قائم ابھی ہے تار نفس
یہ اک امید کہ رکھتی ہے پر سوال مجھے
کہوں میں تازہ غزل اے ہواے تازہ دلی
ذرا سی دیر کو رکھے جو تو بحال مجھے
خرام عمر کسی شہر پر ملال کو چل
کیے ہوئے ہے یہ آسودگی نڈھال مجھے
کہاں سے لائیں بھلا ہم جواز ہم سفری
تجھے عزیز ترے خواب میرا حال مجھے
مجھے کہاں یہ خبر ہے میں کیا ہوں کیسا ہوں
مگر ہے وجہ تسلی ترا جمال مجھے
ابھر رہا ہوں میں سطح عدم سے نقش بہ نقش
تری ہی جلوہ گری ہوں ذرا اجال مجھے
یہاں تو حبس بہت ہے سو گرد باد جنوں
مدار وقت سے باہر کہیں اچھال مجھے
پھر اس کے بعد نہ تو ہے نہ یہ چراغ نہ میں
سحر کی پہلی کرن تک ذرا سنبھال مجھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.