درد ہی دیتا ہے اب وہ نہ دوا دیتا ہے
درد ہی دیتا ہے اب وہ نہ دوا دیتا ہے
ہائے کیسا وہ وفاؤں کا صلہ دیتا ہے
میں نے پینے کے لیے ہاتھ بڑھایا کب تھا
اپنے ہاتھوں سے کوئی آ کے پلا دیتا ہے
گرنے لگتے ہیں اگر اشک مری آنکھوں سے
اپنا دامن کوئی چپکے سے بڑھا دیتا ہے
جس نے اک بار بھی دیکھی ہے تجلی تیری
سارے عالم کو وہ نظروں سے گرا دیتا ہے
ان کی خوشیوں پہ ہی موقوف نہیں اپنی خوشی
ان کا بخشا ہوا ہر غم بھی مزا دیتا ہے
آرزو یہ ہے کہ میں ہوش میں آؤں نہ کبھی
اپنی ہاتھوں سے وہ دامن کی ہوا دیتا ہے
کیوں سمجھتے ہو حبیبؔ اشک کو تم میرے حقیر
یہ مرے قلب کے طوفاں کا پتا دیتا ہے
- کتاب : نغمۂ زندگی (Pg. 64)
- Author : جے کرشن چودھری حبیب
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.