درد ہی زیست کا عنوان ہوا جاتا ہے
درد ہی زیست کا عنوان ہوا جاتا ہے
کون پیوست رگ جان ہوا جاتا ہے
دل اچھلتا ہے خوشی سے کہ وہی شوخ حسیں
میری تنہائی کا مہمان ہوا جاتا ہے
اک ارادہ ہے کہ آغوش در آغوش ہوا
ایک لمحہ ہے کہ رومان ہوا جاتا ہے
ایک مستی ہے کہ آنکھوں میں بھری رہتی ہے
اک تبسم کہ خمستان ہوا جاتا ہے
شرم کے بوجھ سے پلکوں کا کبھی جھک جانا
موت کا اپنی یہ سامان ہوا جاتا ہے
ہائے کیا محشر خاموش جگایا تو نے
دل کے آشوب پہ احسان ہوا جاتا ہے
جتنا دکھ تھا مرے سینے میں سمٹ آیا ہے
اک نرالا سا یہ مہمان ہوا جاتا ہے
میں شہید رہ الفت ہوں ازل سے سرمدؔ
یہی مسلک مرا ایمان ہوا جاتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.