درد کی آنچ میں جلتا ہے یہ گھر کیا کیجے
درد کی آنچ میں جلتا ہے یہ گھر کیا کیجے
خواب ہوتی ہے تمنا کی سحر کیا کیجے
ہم بھی مانوس نہیں دل کے اندھیروں سے ابھی
طائر شب بھی ہے کھولے ہوئے پر کیا کیجے
دور منزل ہے کڑی دھوپ میں کرنا ہے سفر
کٹ گئے راہ میں جتنے تھے شجر کیا کیجے
وہ گئے وقت کی مانند نہ لوٹے گا کبھی
اب لٹا کر یہ وفاؤں کے گہر کیا کیجے
بے گواہی کے بھنور میں ہے مری ذات کہ اب
آنکھ کی جھیل بھی ہوتی نہیں تر کیا کیجے
بارش سنگ تو بے وجہ نہیں ہے عابدؔ
آ گیا مجھ کو وفاؤں کا ہنر کیا کیجے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.