درد کی ناؤ کو آنکھوں کے سمندر سے نکال
درد کی ناؤ کو آنکھوں کے سمندر سے نکال
تب کسی زخم کی زنجیر کو لنگر سے نکال
اپنی آنکھوں کو سر شہر تماشا نہ بنا
اپنی شکنیں کبھی پیشانیٔ چادر سے نکال
غم کے سائے میں نہ بیٹھے گا کبھی خانہ بدوش
دھوپ ہی اس کا مقدر ہے اسے گھر سے نکال
تو ہی قادر ہے تو اس وحشت دل کی خاطر
اب یہ صحرائے ستم میرے مقدر سے نکال
شور چبھتا ہے ہمیشہ سے مرے کانوں کو
اب یہ سناٹا مری روح کے اندر سے نکال
میری آنکھیں بھی کبھی نیند کی لذت چکھ لیں
میری آنکھیں بھی کبھی خواب کے منظر سے نکال
مانتا ہی نہیں وے بات کبھی بھی میری
بارہا میں نے کہا پاؤں نہ چادر سے نکال
بعد میں بیٹھ کے شکنوں کو مٹا اے شاربؔ
پہلے آوارہ تمناؤں کو بستر سے نکال
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.