درد لے جاتا زیاں لے جاتا
درد لے جاتا زیاں لے جاتا
کون یہ تحفۂ جاں لے جاتا
میں کہ لرزاں تھا جھکی شاخوں میں
مجھ کو جھونکا بھی کہاں لے جاتا
مجھ کو کیوں ڈھانپ دیا شاید میں
جل نہ سکتا تو دھواں لے جاتا
اتنا ارزاں ہے یہ بازار وفا
میں کہاں جنس گراں لے جاتا
تیرا کمرہ ہے مگر تو ہی نہیں
تو ہی آتا یہ سماں لے جاتا
تو مرا دوست ہے اے کاش کہ تو
آہ دے جاتا فغاں لے جاتا
اتنا پندار تو ہوتا مجھ میں
تو مکیں تھا میں مکاں لے جاتا
میں تو اس کا ہی تھا اقبال متینؔ
اس کا جی چاہے جہاں لے جاتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.