درد سے یار چیخ اٹھے ہیں
درد سے یار چیخ اٹھے ہیں
سر بازار چیخ اٹھے ہیں
تو کہانی میں کیوں ہوا شامل
سارے کردار چیخ اٹھے ہیں
جن کے منہ میں زبان تھی ہی نہیں
وہ بھی اس بار چیخ اٹھے ہیں
خود ہی آ اور آ کے دیکھ ذرا
تیرے شہکار چیخ اٹھے ہیں
تیری تصویر کیا لگی گھر میں
در و دیوار چیخ اٹھے ہیں
تیرا ستار ورد کرتے ہوئے
دل کے سب تار چیخ اٹھے ہیں
ایسی آندھی چلی ہے نفرت کی
گل و گلزار چیخ اٹھے ہیں
زندگی کا یہی وطیرہ ہے
آپ بے کار چیخ اٹھے ہیں
آتش فکر تجھ میں جلتے ہوئے
اب چمن زار چیخ اٹھے ہیں
جن کو نفرت سدا جہاں سے ملی
جب ملا پیار چیخ اٹھے ہیں
چپ ہیں مظلوم زخم کھا کر بھی
تیر و تلوار چیخ اٹھے ہیں
ضبط کرتے رہے ہیں مدت تک
آخر کار چیخ اٹھے ہیں
میرے دامن میں آئے جب طارقؔ
پھول اور خار چیخ اٹھے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.