درد وہ تو نے دیا جس کا مداوا نہ ہوا
درد وہ تو نے دیا جس کا مداوا نہ ہوا
تیرا بیمار مسیحا سے بھی اچھا نہ ہوا
آپ ہی کہئے کہ یہ غمزۂ بیجا نہ ہوا
مجھ سے پردہ ہوا اور غیر سے پردا نہ ہوا
بے مروت نہ سہی آپ مگر یہ کیا ہے
مجھ سے پردہ ہوا اور غیر سے پردا نہ ہوا
آپ کی شرم بھی دنیا سے نرالی نکلی
مجھ سے پردہ ہوا اور غیر سے پردا نہ ہوا
تو تڑپ اپنی دکھانے تو چلا ہے اے دل
اور وہ شوخ اگر محو تماشا نہ ہوا
دیکھتے ہی مجھے برسانا یہ پتھر کیسا
تیرا عاشق نہ ہوا میں کوئی دیوانہ ہوا
وہ شب وصل بھی آئے تو چڑھائے تیور
بخت برگشتہ مرا آج بھی سیدھا نہ ہوا
میرے حصے کا نہ ساقی نے بھرا جام اب تک
اور لبریز یہاں عمر کا پیمانہ ہوا
حور ہو اس بت رعنا کے مقابل توبہ
واعظو تم کو عطا دیدۂ بینا نہ ہوا
ہنس پڑا چپکے سے وہ غنچہ دہن کچھ کہہ کر
ایسا یہ وصل کا وعدہ ہوا گویا نہ ہوا
حیف صد حیف کہ رحم آ ہی گیا قاتل کو
نہ ہوا شوق شہادت مرا پورا نہ ہوا
ہاتھ آیا نہ کبھی وہ گل نخل خوبی
کبھی سرسبز مرا باغ تمنا نہ ہوا
قابل ذکر تھی کس دن نہ مری رسوائی
یار کی بزم میں کس دن مرا چرچا نہ ہوا
بخت چمکا نہ کبھی میرے سیہ خانے کا
میرا مہمان کبھی وہ بت رعنا نہ ہوا
آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا مرے لاشے کی طرف
اس ستم گر سے اتنا بھی تو دیکھا نہ ہوا
چشم ساقی کا تصور ہوا رہبر میرا
جب روانہ کبھی میں جانب مے خانہ ہوا
سخت جانی نے مری مجھ کو کیا کیا نادم
حوصلہ یار کی تلوار کا پورا نہ ہوا
لاکھ مارا کیا سر خنجر قاتل نشترؔ
سخت جانی کا مری بال بھی بیکا نہ ہوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.