دریچہ ہے نہ کوئی در ہے کیا کیا جائے
دریچہ ہے نہ کوئی در ہے کیا کیا جائے
قفس نہیں ہے مرا گھر ہے کیا کیا جائے
دھنک کے رنگ میں رخ پر سجائے رہتی ہوں
شکست و ریخت تو اندر ہے کیا کیا جائے
گواہی دے گا مرے رتجگوں کی کون بھلا
بس ایک چاند ہی مظہر ہے کیا کیا جائے
بھٹک رہا ہے جو کشکول نامرادی لئے
سمجھتا خود کو سکندر ہے کیا کیا جائے
لٹا کے دیکھ چکی ہوں میں اپنی جان اس پر
شکایتوں کا وہ دفتر ہے کیا کیا جائے
چرانا چاہتی ہوں جس کو لمحہ دو لمحہ
رقیبوں کو وہ میسر ہے کیا کیا جائے
سخن سے جس کے نہیں آتی درد کی خوشبو
وہ کہتا خود کو سخنور ہے کیا کیا جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.