دریائے عشق جو تھا اتر کر نہیں رہا
دریائے عشق جو تھا اتر کر نہیں رہا
باطن کا حق شناس مگر مر نہیں رہا
اچھا تو آپ خود ہی روایت کو توڑ دیں
کوئی اگر کسی کا بھلا کر نہیں رہا
جذبات اس لیے نہیں پھولے پھلے کبھی
دل یاد عشق یار کا محور نہیں رہا
شامل نہیں ہے یار جو حوران خلد میں
گنتی میں میری آج سے ستر نہیں رہا
ایسے ستم شعار کا بنتا نہیں ہے غم
جو چھوڑتے ہوئے بھی تجھے ڈر نہیں رہا
پھر یوں ہوا کہ یار نے دیوار کھینچ دی
جو مشترک تھا نخل صنوبر نہیں رہا
اعجازؔ کم نہیں یہ فسردہ دلی کا بھی
ہم ڈوبنے چلے تو سمندر نہیں رہا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.