دریائے خوں سے یا تو گزر جانا چاہیے
دریائے خوں سے یا تو گزر جانا چاہیے
یا پھر اسی میں ڈوب کے مر جانا چاہیے
یہ کیا کہ عمر عشق بتاں میں گزار دی
اچھا سا کوئی کام بھی کر جانا چاہیے
کوئی پکارتا ہے تجھے دل کے اس طرف
دل ہی سے پوچھ تجھ کو ادھر جانا چاہیے
لوٹ آئے ہیں درختوں کی شاخوں پہ سب پرند
دن ڈھل چکا ہے مجھ کو بھی گھر جانا چاہیے
کیا شہر شور ظلم میں میں بھی رہوں خموش
کیا تیری طرح مجھ کو بھی ڈر جانا چاہیے
اس قریۂ ستم میں بدن پر نہ رکھ اسے
وہ وقت آ گیا ہے کہ سر جانا چاہیے
شہ کے وظیفہ خوار ہیں سارے خبر نگار
خبروں میں ایک یہ بھی خبر جانا چاہیے
تھوڑی سی پی کے نشہ نہ تجھ کو چڑھے گا شیخ
ہاتھوں میں جو سبو ہے وہ بھر جانا چاہیے
جب ختم ہو چکا حق و باطل میں امتیاز
کیسے کہوں کہ مجھ کو کدھر جانا چاہیے
تو ہی بتا گھرا ہو اگر دشمنوں میں دوست
منہ پھیر کے ادھر سے گزر جانا چاہیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.