دریا ہے محافظ تو کہیں تیز ہوا ہے
دریا ہے محافظ تو کہیں تیز ہوا ہے
طوفان میں کشتی کا نگہبان خدا ہے
پتا جو ابھی ٹوٹ کے شاخوں سے گرا ہے
انسان کی ہستی کا بھرم کھول رہا ہے
شہرت ہو کہ دولت ہو کہ عزت ہو جہاں میں
جو کچھ بھی ملا ماں کی دعاؤں سے ملا ہے
جائے تو کدھر جائے یہ صحرا کا مسافر
سایہ نہ شجر ہے نہ کسی سمت ہوا ہے
کیا طرفہ تماشا ہے کہ مجھ سے مرا قاتل
خود آ کے مرے گھر کا پتہ پوچھ رہا ہے
اس دور میں کیا ڈھونڈتے ہو عدل جہانگیر
مقتول پہ بھی قتل کا الزام لگا ہے
اب پاؤں کے چھالے بھی نہیں دیتے گواہی
صحرا کے سفر میں یہ عجب وقت پڑا ہے
شاید کہ بھرم کھل گیا اس راز جنوں کا
جو آج ظفرؔ کانپتے ہونٹوں پہ دعا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.