دریا کے دھڑکتے سینے تک ساحل کی دعا لے جاؤں گا
دریا کے دھڑکتے سینے تک ساحل کی دعا لے جاؤں گا
حالات کی لہروں پر اک دن میں خود کو بہا لے جاؤں گا
میں اپنے اندھیرے کمرے میں پرچھائیں اگانے کی خاطر
سورج کی شعاعوں کو اپنی مٹھی میں چھپا لے جاؤں گا
خوابوں کے در و دیوار پہ بھی چہرے کی لکیریں پھیلیں گی
یادوں کے مہکتے سایوں کو آنکھوں میں بسا لے جاؤں گا
اے باد حوادث تیری قسم میں ہار نہ مانوں گا تجھ سے
میں اپنی ہتھیلی میں رکھ کر اک اور دیا لے جاؤں گا
حق گوئی اگر ہے جرم تو پھر لے جاؤ صلیبوں تک مجھ کو
سولی کے لٹکتے پھندوں تک میں اپنی صدا لے جاؤں گا
کیا سوچ رہے ہو اے لوگو اب پھینک کے پتھر توڑ بھی دو
ورنہ میں بدن کے شیشے کو پھر آج بچا لے جاؤں گا
خالدؔ میں کسی کے کوچے سے ناکام امیدوں کو لے کر
اک روز بدن سے لپٹائے زخموں کی ردا لے جاؤں گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.