دریا میں بہت کچھ ہے روانی کے علاوہ
دریا میں بہت کچھ ہے روانی کے علاوہ
مدت سے میں سیراب ہوں پانی کے علاوہ
اے شہر ستم زاد تری عمر بڑی ہو
کچھ اور بتا نقل مکانی کے علاوہ
ایمان شکن پیکر دوشیزۂ عالم
سب کچھ ہے ترے پاس جوانی کے علاوہ
کس عہد گنہ گار نے لی آخری ہچکی
مصروف ہیں سب فاتحہ خوانی کے علاوہ
رنگوں کو برتنے کا ہنر سیکھ چکا ہوں
کیا چاہئے اب تیری نشانی کے علاوہ
دنیا سے تعلق کا سبب کس کو بتاؤں
اب دوست کہاں دشمن جانی کے علاوہ
کیا دوں تجھے جاتی ہوئی جاں باز بہارو
کچھ پاس نہیں برگ خزانی کے علاوہ
ہر شخص مداوا ہے عقیدت سے ہے بے زار
مہلت ہے کسے پیر مغانی کے علاوہ
اشعار کہاں دیتے ہیں منہ دیکھی گواہی
خورشیدؔ کہاں نور معانی کے علاوہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.