دریا رکا ہوا تھا مگر میں سفر میں تھا
دریا رکا ہوا تھا مگر میں سفر میں تھا
اک روشنی کا عکس بھی میرے ہنر میں تھا
اوڑھا ہوا تھا سچ کا لبادہ وجود نے
لیکن شعور جھوٹ کے اندھے نگر میں تھا
ہر راستے کی دھول پروں میں سمیٹ کر
انجان منزلوں کا پرندہ سفر میں تھا
بازار میں تھی ہنستے چراغوں کی روشنی
بجھتے ہوئے دیے کا دھواں میرے گھر میں تھا
کندہ تھا خواہشوں کا فسانہ فصیل پر
زندہ حقیقتوں کا لہو اک کھنڈر میں تھا
اتری تھی رات شہر میں آنسو لیے ہوئے
اک قافلہ سحر کا کہیں رہ گزار میں تھا
طاہرؔ مرے وجود کی بولی تو دے گیا
شاید وہ اپنی ذات کے نیلام گھر میں تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.