دریا ساحل طوفاں دیکھے وقت کے آنے جانے میں
دریا ساحل طوفاں دیکھے وقت کے آنے جانے میں
ہم نے ساری عمر گنوا دی کشتی پار لگانے میں
بیگانے تو بیگانے تھے بیگانوں کا شکوہ کیا
اپنوں کا بھی ہاتھ رہا ہے گھر کو آگ لگانے میں
پل دو پل میں ڈھ جاتے ہیں تاج محل ارمانوں کے
لیکن برسوں لگ جاتے ہیں بگڑی بات بنانے میں
ہوش و خرد کا دامن تھامو جوش و جنوں سے کام نہ لو
شیشے پر ہی بن آتی ہے پتھر سے ٹکرانے میں
کیسی منزل کیسی راہیں خود کو اپنا ہوش نہیں
وقت نے ایسا الجھایا ہے اپنے تانے بانے میں
گلشن گلشن صحرا صحرا شبنم پاشی کی ہم نے
پھر بھی نام ہمارا آیا شعلوں کو بھڑکانے میں
رنگ بہاراں بوئے گلستاں ان کی کہانی کے عنواں
ذکر خزاؤں کا ملتا ہے میرے ہی افسانے میں
اپنے ہی سر تہمت لے لی دیوانے نے دانستہ
جانے کیا مجبوری ہوگی سچی بات بتانے میں
نفرت کی دیواریں ڈھا دیں پیار کے آنگن میں بیٹھیں
بربادی ہی بربادی ہے ناحق خون بہانے میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.