دریا تھا ساتھ پھر بھی عجب بے بسی رہی
دریا تھا ساتھ پھر بھی عجب بے بسی رہی
سیراب ہم ہوئے تو مگر تشنگی رہی
اہل سفر کو جستجو منزل پہ لے گئی
گرد سفر ہماری یہ آوارگی رہی
جھکتے ہیں ہم غرض کے لیے رب کے سامنے
بے لوث اب کسی کی کہاں بندگی رہی
دیوار کیا کھڑی ہوئی آنگن کے درمیاں
چھت سے اترتی دھوپ بھی سہمی ہوئی رہی
آنکھوں میں آ کے میری جو اک خواب بس گیا
پھر اس کے بعد زندگی بے خواب سی رہی
ریشمؔ الجھ کے رشتوں کے اس پیچ و خم میں خود
اپنی ہی ذات کا میں سرا ڈھونڈھتی رہی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.