دریاؤں کے ستم سے بچاتا رہے کوئی
خوابیدہ ساحلوں کو جگاتا رہے کوئی
صدیوں پرانی خاک سے تعمیر جسم میں
کب تک لہو کا بار اٹھاتا رہے کوئی
جو لوگ روز و شب کے تعاقب میں چل دئے
واپس انہیں سفر سے بلاتا رہے کوئی
پرواز کے اسیر ہوئے میرے بال و پر
اونچائیوں سے مجھ کو گراتا رہے کوئی
کب تک غموں سے چور سوالوں کی کھیتیاں
سیلاب جستجو سے بچاتا رہے کوئی
بیمار موسموں کا مداوا محال ہے
آنکھوں میں لاکھ رنگ سجاتا رہے کوئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.