درمیاں گر نہ ترا وعدۂ فردا ہوتا
درمیاں گر نہ ترا وعدۂ فردا ہوتا
کس کو منظور یہ زہر غم دنیا ہوتا
کیا قیامت ہے کہ اب میں بھی نہیں وہ بھی نہیں
دیکھنا تھا تو اسے دور سے دیکھا ہوتا
کاسۂ زخم طلب لے کے چلا ہوں خالی
سنگ ریزہ ہی کوئی آپ نے پھینکا ہوتا
فلسفہ سر بہ گریباں ہے بڑی مدت سے
کچھ نہ ہوتا تو خدا جانے کہ پھر کیا ہوتا
ہم بھی نوخیز شعاعوں کی بلائیں لیتے
اپنے زنداں میں اگر کوئی دریچہ ہوتا
آپ نے حال دل زار تو پوچھا لیکن
پوچھنا تھا تو کوئی اس کا مداوا ہوتا
دست مفلس سے تہی تر ہے سفینہ انورؔ
اس پہنچنے سے تو ساحل پہ نہ پہنچا ہوتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.