درون وادیٔ شب عکس آفتاب تو ہو
کہ انجماد میں تحریک انقلاب تو ہو
حیات کی کوئی توجیہہ تب ہی ٹھیک لگے
ہر اک جواز کے پیچھے کوئی کتاب تو ہو
ترے جنوں کو کوئی جہت بھی ملے گی ضرور
جو تیرے عزم کی مٹھی میں کوئی خواب تو ہو
عجب مزاج ہے رد و قبول کا اپنا
کوئی نظر کوئی معیار انتخاب تو ہو
سب اپنی ذات کے محبس میں بند رہتے ہیں
کوئی دریچہ کوئی راہ کوئی باب تو ہو
سمندروں سے بھی تشنہ لبی ابھرتی ہے
کوئی تو وجہ تسلی سہی سراب تو ہو
سماعتوں نے بہت شور سن لیا سرشارؔ
کوئی لطیف سا نغمہ کوئی رباب تو ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.