دروازے پر ٹانک دی اس نے آہٹ میرے آنے کی
دروازے پر ٹانک دی اس نے آہٹ میرے آنے کی
اور ہوا میں پھیل گئی سرگوشی ایک فسانے کی
سارے رشتے سارے بندھن کانچ کا پیکر ہوتے ہیں
کانچ کی فطرت ہے کرچوں سے پہلے شور مچانے کی
باہر رنگوں کی برسات ہے اور اندر اس کی رم جھم
ایسے میں تتلی کو کہاں فرصت ہے پر پھیلانے کی
روشن داں سے دھوپ کا ٹکڑا آ کے میرے پاس گرا
اور پھر سورج نے کوشش کی مجھ سے ہاتھ ملانے کی
بادل دیکھ کے الگنیوں پر کپڑے پھیلائے ہم نے
اور پھر کی ایک اک سے شکایت ان کے بھیگے جانے کی
کوئی کھڑا ہے آنکھوں میں پھولوں کے تھال اٹھائے ہوئے
پر میری عادت ہی نہیں ہے سجنے اور سجانے کی
کتنی ہی یادوں کے حمیراؔ روشن ہیں بے نام چراغ
آج کوئی دیکھے تو رونق میرے آئنہ خانے کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.