دشت غربت میں ہوئی وہ آبلہ پائی کہ بس
دشت غربت میں ہوئی وہ آبلہ پائی کہ بس
اور پھر کانٹوں نے کی ایسی مسیحائی کہ بس
رنگ وہ لایا مرا ذوق جبیں سائی کہ بس
آستان یار سے آخر ندا آئی کہ بس
جان لیوا یوں ہوئی راتوں کی تنہائی کہ بس
داستان درد و غم وہ دل نے دہرائی کہ بس
اللہ اللہ اہتمام جلوہ آرائی کہ بس
دیدۂ مشتاق کی ایسی پذیرائی کہ بس
مجھ پہ اپنوں کی ہوئیں ایسی کرم فرمائیاں
میری حالت پر وہ غیروں کو ہنسی آئی کہ بس
کوچۂ جاناں کی جانب جب کبھی اٹھے قدم
دور تک سمجھانے مجھ کو زندگی آئی کہ بس
تذکرہ ترک محبت کا کبھی جب آ گیا
ناصح مشفق نے وہ تقریر فرمائی کہ بس
صحن گلشن میں کیا تھا ذکر زلف یار کا
پاؤں میں سنبل نے وہ زنجیر پہنائی کہ بس
وجہ کچھ بے مہریٔ اہل وطن بھی ہے ضرور
ورنہ غربت مجھ کو کیوں اس درجہ راس آئی کہ بس
مے کشوں کے حال پر فطرت کو جب رحم آ گیا
مے کدے پر یک بیک ایسی گھٹا چھائی کہ بس
مانگتے تھے ہم خزاں کے ختم ہونے کی دعا
اس کے جانے پر چمن میں وہ بہار آئی کہ بس
جب شب غم رحم مرگ ناگہاں کو آ گیا
جاگنے والوں کو طلعتؔ ایسی نیند آئی کہ بس
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.