دشت ہو سے تو کبھی باغ نوا سے گزرا
روز میں ایک نئی آب و ہوا سے گزرا
تھرتھراتی تھی زمیں کانپ رہے تھے افلاک
سانحہ ہو کے مرے دست دعا سے گزرا
باغ میں باد صبا آگ لگاتی گزری
شعلۂ ہجر دل باد صبا سے گزرا
انگلیوں میں تری آباد ہے اک شہر ہنر
یہ گماں بھی ترے نقش کف پا سے گزرا
کس لیے چاند ستاروں نے کیا میرا طواف
کون یہ آج مرے غار حرا سے گزرا
میری آنکھوں میں شراروں نے کیا آ کے ہجوم
جب مرا شوق زیاں کالی گھٹا سے گزرا
وہ گلی تھی تری ہاں تیری گلی تھی شاید
ایسا محسوس ہوا کوئے شفا سے گزرا
وقت نے کاٹ دئے تھے پر پرواز مرے
دست و پا مارتا سفاک خلا سے گزرا
اس زمیں پر نہ کوئی در ہے نہ دروازہ مگر
جو بھی گزرا ہے یہاں سے لیے کاسے گزرا
میں ہی میں خود کو نظر آیا وہاں پر یاورؔ
جب تجسس مرا کہسار ندا سے گزرا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.