دشت ہیں نوحہ کناں شہر کی ویرانی پر
دشت ہیں نوحہ کناں شہر کی ویرانی پر
کس نے اس شہر کی بنیاد رکھی پانی پر
اک شرر بھید کے مانند چھپا ہے دل میں
ایک وہ رنج کہ ظاہر نہیں پیشانی پر
حبس کی رت میں چلے سانس غنیمت سمجھو
نور کی ایک کرن چاند ہے زندانی پر
کون جانے کہ یہ اسرار کھلیں گے کیسے
کوئی رنجور نہ ہو بے سر و سامانی پر
تیرگی اور بڑھی جاتی ہے رفتہ رفتہ
آج کیوں رات کمر بستہ ہے عریانی پر
جسم کی حد سے پرے کوئی کھڑا سوچتا ہے
کیسے اب ریت کی دیوار بنے پانی پر
آسماں تیری لحد کھود رہا ہے کوئی
اب زمیں اور کسے لائے نگہبانی پر
اس فسوں کار محبت میں یہی ہوتا ہے
ہونٹ خاموش رہیں آنکھ ہو طغیانی پر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.