دشت و صحرا کو بھی وہ منظر سہانے دے گیا
دشت و صحرا کو بھی وہ منظر سہانے دے گیا
اور زباں پر پتھروں کی وہ ترانے دے گیا
مسخ ہونے لگ گئے احساس کے چہرے تمام
دھوپ کے جلتے ہوئے وہ آشیانے دے گیا
دام پھیلائے گا کل اپنی ہوس کا بالیقیں
آج تو وہ اے پرندے چند دانے دے گیا
دیکھتے ہیں تیرے گیتوں میں ترا چہرہ سبھی
دل بہل جائیں گے جن سے وہ بہانے دے گیا
وہ رہا مسرور محفل میں چراغوں کی مگر
ناز ہم کو ان اندھیروں کے اٹھانے دے گیا
خوں چکاں منظر دیا اور زہر کا دریا دیا
اپنی تقریروں میں شعلوں کے فسانے دے گیا
شکریہ صد شکریہ اے شاعر بسمل کہ تو
درد سے معمور غزلیں گنگنانے دے گیا
اس سے بڑھ کر اور کیا سوغات ہوگی اے قمرؔ
زخم دل درد و خلش کتنے خزانے دے گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.