دشت سے پتھر اٹھا کر شہر میں لائے ہو کیوں
دشت سے پتھر اٹھا کر شہر میں لائے ہو کیوں
یہ لہو مانگیں گے تم سے خود پہ اترائے ہو کیوں
خشک ہے دل کا کنول سانسوں میں غم کی آگ ہے
جب برسنا ہی نہیں ہے بادلوں چھائے ہو کیوں
مے کے ساغر ہیں اگر غم کو مٹانے کا علاج
اے نئے موسم کے پھولو پی کے مرجھائے ہو کیوں
اب تو خاموشی تمہاری خار سی چبھنے لگی
چپ ہی رہنا تھا بتاؤ پھر یہاں آئے ہو کیوں
شب کی ماری بستیوں کے ہر در و دیوار پر
دھوپ تو سورج کی ہے تم خود پہ اترائے ہو کیوں
ہاتھ میں ہے ہاتھ موسم مست گل مہکے ہوئے
دیکھنے پر میرے پھر تم مجھ سے شرمائے ہو کیوں
یہ ہیں ایسی وادیاں دریا بھی ہیں جن کے سراب
لوگ ہیں پیاسے یہاں اسرارؔ تم آئے ہو کیوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.