دست ضروریات میں بٹتا چلا گیا
میں بے پناہ شخص تھا گھٹتا چلا گیا
پیچھے ہٹا میں راستہ دینے کے واسطے
پھر یوں ہوا کہ راہ سے ہٹتا چلا گیا
عجلت تھی اس قدر کہ میں کچھ بھی پڑھے بغیر
اوراق زندگی کے پلٹتا چلا گیا
جتنی زیادہ آگہی بڑھتی گئی مری
اتنا درون ذات سمٹتا چلا گیا
کچھ دھوپ زندگی کی بھی بڑھتی چلی گئی
اور کچھ خیال یار بھی چھٹتا چلا گیا
اجڑے ہوئے مکان میں کل شب ترا خیال
آسیب بن کے مجھ سے لپٹتا چلا گیا
اس سے تعلقات بڑھانے کی چاہ میں
فہمیؔ میں اپنے آپ سے کٹتا چلا گیا
- کتاب : Ghazal Calendar-2015 (Pg. 01.08.2015)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.