دست-کش ہوں نہ مئے گل کے خوش آشام ابھی
دست-کش ہوں نہ مئے گل کے خوش آشام ابھی
کہ لبالب ہیں مہ و مہر کے دو جام ابھی
ذہن میں ساقی ہے مے خانہ ہے ہے جام ابھی
ہوش کہتا ہوں اسے ہوش کا کیا کام ابھی
مجھ کو درکار نہ ہے کفر نہ اسلام ابھی
سیدھے سیدھے ہی چلے آتے ہیں پیغام ابھی
تو بھی باقی تری رحمت بھی ہے باقی ساقی
رہنے دے ہے مے عصیاں سے بڑا کام ابھی
خال و گیسو سے ہے یہ سلسلۂ راز و نیاز
دانہ صد دانہ ہو یہ دام ہو صد دام ابھی
زیست کے خواب کی تعبیر ابھی باقی ہے
ابتدا دیکھ چکے ہے مگر انجام ابھی
رہرو عشق ابھی دور ہے معراج حبیب
رشک منزل نہ ہوا راہ میں ہر گام ابھی
ذرہ ذرہ ہے اک آتش کدۂ نور کلیم
دیکھ اگر تو نہ ہو آتش زدۂ بام ابھی
امتیاز من و تو راز خفی ہے لیکن
خاصگاں کے لئے کہتا ہوں سر عام ابھی
عکس کو زعم ہے بے مثلیٔ رنگ و بو کا
طرفہ یہ ہے کہ مقابل ہے وہ گلفام ابھی
راز گوئی تری ایمنؔ ہے گناہ اکبر
مانگ لے عفو کہ اس کا ہے کرم عام ابھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.