دور فلک جب دہراتا ہے موسم گل کی راتوں کو
دور فلک جب دہراتا ہے موسم گل کی راتوں کو
کنج قفس میں سن لیتے ہیں بھولی بسری باتوں کو
ریگ رواں کی نرم تہوں کو چھیڑتی ہے جب کوئی ہوا
سونے صحرا چیخ اٹھتے ہیں آدھی آدھی راتوں کو
آتش غم کے سیل رواں میں نیندیں جل کر راکھ ہوئیں
پتھر بن کر دیکھ رہا ہوں آتی جاتی راتوں کو
مے خانے کا افسردہ ماحول تو یوں ہی رہنا ہے
خشک لبوں کی خیر مناؤ کچھ نہ کہو برساتوں کو
ناصرؔ میرے منہ کی باتیں یوں تو سچے موتی ہیں
لیکن ان کی باتیں سن کر بھول گئے سب باتوں کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.