دیار چشم سے نکلا ہے جستجو کر کے
دیار چشم سے نکلا ہے جستجو کر کے
پڑھی نماز سفر اشک نے وضو کر کے
ہوائے دشت طلب میری آرزو کر کے
سروں پہ خاک اڑاتی ہے ہاؤ ہو کر کے
ہمیشہ بات کی حالانکہ اس نے تو کر کے
میں بے مزا نہ ہوا پھر بھی گفتگو کر کے
نہ دے سکیں گے اگر ہم خراج نوک سناں
تو آج دیکھیں گے خود کو لہو لہو کر کے
ہماری فکر مصور کے گرد گھومتی ہے
ہوا جو آتی ہے گلشن سے تم کو چھو کر کے
تکان دے گی اگر دھوپ غم کے سورج کی
خوشی کے چاند کو رکھ دوں گا روبرو کر کے
فراز عرش کا چمکا ہوا ستارا بھی
ٹھہر نہ پائے گا راتوں کو اب عدو کر کے
اسے ہماری ضرورت تھی اس لئے شاربؔ
قبائے دل وہ دکھاتا رہا رفو کر کے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.