دے سکتا ہے کیا میری وفاؤں کا صلا اور
دے سکتا ہے کیا میری وفاؤں کا صلا اور
ترکش میں اگر تیر ہوں باقی تو چلا اور
میں راہ رو راہ تمنا ہوں ستمگر
ہر زخم پہ بڑھ جاتا ہے کچھ میرا نشاں اور
دیوانے جلاتے ہیں چراغوں کو لہو سے
اس واسطے بڑھ جاتی ہے کچھ ان کی ضیا اور
اس ملت مظلوم کی غیرت کو جگانے
دو چار تھپیڑے ذرا اے موج بلا اور
کیا حوصلہ توڑے گی مرا باد مخالف
بجھتا ہے دیا ایک تو جلتا ہے دیا اور
پھیلے گی شفق بن کے مرے خون کی لالی
گردوں کے بھی پھر ہوں گے کچھ انداز ادا اور
تبدیلی حالات کا شائق ہے زمانہ
درکار مگر ہے ابھی کچھ رنگ حنا اور
پیران خرابات تو مے نوشی میں خوش ہیں
معلوم ہو کیا ان کو محبت ہے نشہ اور
ہے خرقۂ سالوس یہ زاہد ذرا بچنا
خلوت کی قبا اور ہے جلوت کی قبا اور
ہو سکتا ہے میں تجھ کو میسر نہ رہوں کل
جی بھر کے مجھے جان وفا آج ستا اور
یہ کیسے مسیحا سے پڑا ہے مرا پالا
بڑھتا ہے مرض میرا جو دیتا ہے دوا اور
پر خار گزر گاہ کا شیدائی ہوں ارشدؔ
اس راہ پہ چلنے کا ہے اپنا ہی مزا اور
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.