دے اٹھے ہیں لو کچھ یوں عارض اس پری رو کے
دے اٹھے ہیں لو کچھ یوں عارض اس پری رو کے
جل میں جیسے عکس افگن پھول ہوں لب جو کے
یوں دھواں دھواں سی ہیں مشعلیں تمدن کی
لے رہے ہوں سانس ان میں جیسے آگ کے لوکے
آنکھ سے نکلتے ہی جا ملا جو ماٹی میں
کون پونچھتا آنسو اس غریب آنسو کے
کانپ کانپ اٹھتا ہے چاند کا کلیجہ جب
ٹوٹتے ہیں آئینے چاندنی کی خوشبو کے
ہم جو ایک جاں ہوتے ہوک ہوک کر روتے
دوریوں کے ویرانے مرحلے من و تو کے
سیر غنچہ و گل سے جس قدر ہوئیں آنکھیں
ہم اسی قدر نکلے رنگ روپ کے بھوکے
رات کروٹیں کیا کیا لیں ترے تصور نے
بار بار بج اٹھتے کان ہر بن مو کے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.