دیکھ کر اس کو نہیں ہوش میں آیا جاتا
دیکھ کر اس کو نہیں ہوش میں آیا جاتا
خود بخود دل میں ہے اک شخص سمایا جاتا
اس کے دیدار کی پیاسی تھیں نگاہیں اس کی
کاش بیمار محبت نہ ستایا جاتا
ہم تو ہر حال میں راضی بہ رضا تھے لیکن
مان جاتا بہ خوشی وہ تو منایا جاتا
جس نے نا وقت بجھا دی مری شمع امید
مجھ سے وہ وعدہ شکن کیسے بھلایا جاتا
پھیر لیتا نہ اگر دیکھ کے آنکھیں مجھ سے
دل سے دل ہاتھ سے پھر ہاتھ ملایا جاتا
اس کی محفل میں کمی کا تھا سبھی کو احساس
ہوتا آنے کو وہ راضی تو بلایا جاتا
جانے کیوں پیار کے دشمن ہیں زمانے والے
آسماں سر پہ نہیں ایسے اٹھایا جاتا
ہے یہ کردار کشی اس کو صحافت نہ کہیں
کر کے بدنام نہیں نام کمایا جاتا
محفل عیش و طرب میں نہیں اب جی لگتا
ہوتے گر ساتھ جو تم جشن منایا جاتا
کھو دیا تو نے وقار اپنا مری نظروں میں
کر کے احسان نہیں ایسے جتایا جاتا
بے گناہی کی سزا دینی نہ ہوتی جو مجھے
تختۂ مشق ستم کیسے بنایا جاتا
شکریہ آ گئے تم وقت پہ ملنے ورنہ
بار غم کیسے اکیلے یہ اٹھایا جاتا
میرے والد کا تصرف ہے مرا عرض ہنر
ورنہ میں بزم ادب میں نہیں پایا جاتا
مصرع طرح سے حالی کے قلم تھا مرعوب
ورنہ کچھ زور قلم اپنا دکھایا جاتا
بد گمانی کا گزر ہوتا نہ دل میں برقیؔ
رسم الفت کو ہمیشہ جو نبھایا جاتا
- کتاب : Inpage File Mail By Salim Saleem
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.