دیکھ لیتا ہوں تو پھر آنکھ چھلک جاتی ہے
دیکھ لیتا ہوں تو پھر آنکھ چھلک جاتی ہے
تیری بستی کی طرف جو بھی سڑک جاتی ہے
روٹھنے لگتی ہے جب مجھ سے محبت میری
میرے بازو سے یہ تعویذ کھسک جاتی ہے
طنز کیوں کرتی ہے اس ٹیڑھی کمر پر دنیا
بوجھ بھاری ہو تو ہر شاخ لچک جاتی ہے
ریت جیسے ہمیں لگنے لگے سارے رشتے
ریت ہاتھوں سے اٹھاؤ تو سرک جاتی ہے
جب بھی سنتی ہے وہ انجام وفا کے قصے
ایک لڑکی مری گودی میں دبک جاتی ہے
معجزہ بھی ترے بوسے کا عجب ہے اے ماں
چوم لیتی ہے تو تقدیر چمک جاتی ہے
عشق میں لوگ بہک جائیں تو حیرت کیسی
بن پیمبر کے تو امت بھی بہک جاتی ہے
ایسے بھٹکا ہوں تری یاد کے صحراؤں میں
جیسے بچی کسی میلے میں بھٹک جاتی ہے
خرچ اتنا بھی نہ اشکوں کو کیا کر اے دلؔ
ڈھیر رو دینے سے یہ آنکھ چپک جاتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.