دیکھا اٹا ہوا جو گلوں کو غبار میں
دیکھا اٹا ہوا جو گلوں کو غبار میں
مصروف ہیں گھٹائیں چمن کے نکھار میں
اتنے ہیں داغ آ نہیں سکتے شمار میں
تل بھر کی بھی جگہ نہ دل داغدار میں
سو میں بھلا ہے اب نہ بھلا ہے ہزار میں
برکت ہی اب رہی نہ کسی کاروبار میں
پاؤں کے آبلوں سے مرے آ کے پوچھئے
کیا لذت و مزہ ہے نہاں نوک خار میں
جیتا ہوں ان کی ابروئے خم دار دیکھ کر
پنہاں ہے زندگی مری خنجر کی دھار میں
ہوگا وفا نہ وعدۂ فردا تمام عمر
رکھیں گے حشر تک وہ مجھے انتظار میں
اس مدت مدید کی کچھ انتہا بھی ہے
روز ازل سے حشر کے ہوں انتظار میں
جانکدنی سے چھوٹ کے آ کر پڑے تھے ہم
آتے ہی آن پہنچے فرشتے مزار میں
مجھ سا ملے گا چاہنے والا نہ آپ کو
دس بیس میں پچاس میں سو میں ہزار میں
صیاد تجھ سا ہوگا نہ کوئی ستم ظریف
بلبل کو قید کرتا ہے فصل بہار میں
بگڑی کا اپنی ذکر کروں ان سے کس گھڑی
رہتے ہیں ہر گھڑی وہ بناؤ سنگھار میں
رکھتے ہیں ساتھ جیب میں کنگھا اور آئنہ
رہتے ہیں اب تو مرد بھی ہر دم سنگھار میں
سوداگری بھی سودا ہے جب تجربہ نہیں
دے بیٹھے سب دکان وہ اپنی ادھار میں
ہر دم نگاہ در پہ مری ہے لگی ہوئی
آنکھیں ہیں فرش راہ تیرے انتظار میں
اہل سخن کی ذرہ نوازی ہے یہ عطاؔ
اہل سخن کے آ گئے ہم بھی شمار میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.