دیکھے ہوئے کسی کو بہت دن گزر گئے
اس دل کی بے بسی کو بہت دن گزر گئے
ہر شب چھتوں پہ چاند اترتا تو ہے مگر
اس گھر میں چاندنی کو بہت دن گزر گئے
کوئی جواز ڈھونڈ غم نا شناس کا
بے وجہ بیکلی کو بہت دن گزر گئے
اب تک اکیلے پن کا مسلسل عذاب ہے
دنیا سے دوستی کو بہت دن گزر گئے
تیری رفاقتیں تو مقدر میں ہی نہ تھیں
اب اپنی ہی کمی کو بہت دن گزر گئے
مدت ہوئی ہے ٹوٹ کے رویا نہیں ہوں میں
اس چین کی گھڑی کو بہت دن گزر گئے
وہ جاگتی حویلی بھی ویران ہو گئی
اس نقرئی ہنسی کو بہت دن گزر گئے
وہ قہقہے بھی وقت کے صحرا میں کھو گئے
گلیوں کی خامشی کو بہت دن گزر گئے
مدت ہوئی کہ رات کا وہ جاگنا گیا
اس رنج عاشقی کو بہت دن گزر گئے
جو اعتبار زخم ہنر نے عطا کیا
دانشؔ وہ شاعری کو بہت دن گزر گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.