دیکھیے کتنے سخن فہم سخن ور آئے
میں نے اک پھول اٹھایا کئی پتھر آئے
کر چکے ترک تعلق تو اسے سوچنا کیا
دل سے نکلا ہے تو وہ یاد بھی کیوں کر آئے
پھر وہی رات ہو بادل ہوں ہوا چلتی ہو
پھر وہی چاند درختوں سے نکل کر آئے
راہ ہموار مقدر میں نہیں تھی شاید
پاؤں نکلا تھا ابھی گھر سے کہ پتھر آئے
ایک دو گام مسافت تھی تری گلیوں کی
ساری دنیا کی تھکن لاد کے ہم گھر آئے
جنگ جاری ہے ابھی جاگتے رہئے شب بھر
جانے کس اوٹ سے چھپ کر کوئی لشکر آئے
کیا کوئی غم کے گنوانے کا ہنر ہاتھ آیا
مسکراتے ہوئے جو رنج کے خوگر آئے
دیکھ کر جس کی جھلک جان میں جان آتی تھی
اب سر راہ اسے دیکھ کے چکر آئے
اس برس پھول زیادہ نہ سہی شاخوں پر
بارشیں کم تھیں مگر رنگ برابر آئے
اب تو اس نیند میں چلتے ہوئے اکتا گئے ہم
اب تو بہتر ہے کسی موڑ پہ ٹھوکر آئے
ایک دو پل تو فراموش بھی کر دیں اس کو
ہاں اگر شخص کوئی یاد برابر آئے
غم گساروں میں مرے چارہ گروں میں اکثر
میرے دشمن بھی کئی بھیس بدل کر آئے
لوگ کس خواب سے روتے ہوئے اٹھے جاناںؔ
جانے کس قریہ ماتم سے یہ باہر آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.