دیکھتے جاتے ہیں نمناک ہوئے جاتے ہیں
دیکھتے جاتے ہیں نمناک ہوئے جاتے ہیں
کیا گلستاں خس و خاشاک ہوئے جاتے ہیں
ایک اک کر کے وہ غم خوار ستارے میرے
غم سر وسعت افلاک ہوئے جاتے ہیں
خوش نہیں آیا خزاں کو مرا عریاں ہونا
زرد پتے مری پوشاک ہوئے جاتے ہیں
دیکھ کر قریۂ ویراں میں زمستاں کا چاند
شام کے سائے الم ناک ہوئے جاتے ہیں
ظلم سب اہل زمیں پر ہیں زمیں والوں کے
ہم عبث دشمن افلاک ہوئے جاتے ہیں
دیدۂ تر سے میسر تھا ہمیں دل کا گداز
قحط گریہ ہے تو سفاک ہوئے جاتے ہیں
کوزہ گر نے ہمیں مٹی سے کیا تھا تخلیق
کیا تعجب ہے اگر خاک ہوئے جاتے ہیں
کیسی عبرت ہے کہ اس کش مکش رزق میں ہم
اپنے ہی رزق کی خوراک ہوئے جاتے ہیں
- کتاب : Kitab-e-Rafta (Pg. 129)
- Author : Firasat Rizvi
- مطبع : Academy Bazyaft, Karachi Pakistan Lahore (2007)
- اشاعت : 2007
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.