دیتا تھا جو سایا وہ شجر کاٹ رہا ہے
دیتا تھا جو سایا وہ شجر کاٹ رہا ہے
خود اپنے تحفظ کی وہ جڑ کاٹ رہا ہے
بے سمت اڑانوں سے پشیماں پرندہ
اب اپنی ہی منقار سے پر کاٹ رہا ہے
محبوس ہوں غاروں میں مگر آذر تخیئل
چٹانوں میں اشکال ہنر کاٹ رہا ہے
اک ضرب مسلسل ہے کہ رکتی ہی نہیں ہے
ہر تار نفس درد جگر کاٹ رہا ہے
ہے کون کمیں گاہ میں یہ کیسے بتاؤں
ہر تیر مگر میرے ہی پر کاٹ رہا ہے
امید اجالے کا لیے تیشہ ہر اک دل
ہر رات بہ انداز سحر کاٹ رہا ہے
کرتا ہے فزوں وحشت دل دشت کا موسم
بلقیسؔ مگر کیا کروں گھر کاٹ رہا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.