دھوکہ ہے اگر آنکھ میں قاتل کی نمی ہے
دھوکہ ہے اگر آنکھ میں قاتل کی نمی ہے
شعلوں پہ کہیں آج تلک برف جمی ہے
پتوں کی صدائیں ہیں کہ مجبور کا نوحہ
پر میرے درختوں سے ہوا باندھ گئی ہے
یا تو مری بستی کے سبھی لوگ ہیں اندھے
یا حلقۂ آفاق میں سورج کی کمی ہے
ہر شخص ہے محروم یہاں فکر رسا سے
فطرت میں ابھی تک وہی شوریدہ سری ہے
روپوش نگاہوں سے ہے ہنگامۂ فردا
آئینۂ ادراک پہ بھی گرد جمی ہے
وہ قوت بازو ہے نہ ہمت نہ شجاعت
تلوار پڑی اپنا ہی دم چاٹ رہی ہے
کوؤں سے لرزتا ہے ابابیل کا لشکر
شاہین کی تقدیر میں بے بال و پری ہے
اب واعظ و زاہد ہیں بہم دست و گریباں
اک جنگ جمل آج مساجد میں چھڑی ہے
جو راندۂ درگاہ تھے وہ تخت نشیں ہیں
معیار فقیری نہیں دریوزہ گری ہے
فرعون کی اولاد گئی شمس و قمر تک
اور آل نبی نیل کے ساحل پہ کھڑی ہے
ابلیس بھی پانی کے لیے دوڑ رہا ہے
لگتا ہے کہ دوزخ میں کہیں آگ لگی ہے
سچائی سے اس شخص کی دیرینہ عداوت
تاریخ کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے
آندھی تو اڑا لے گئی کاشانۂ مفلس
ظالم کی حویلی ابھی محفوظ کھڑی ہے
سیلاب جو آیا اسے صحرا نے دبوچا
بجلی بھی کہیں جا کے سمندر میں گری ہے
ہمسایہ اٹھا لاتا ہے گھر میں من و سلویٰ
پر میری انا ہے کہ مجھے روک رہی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.