ڈھول کی تھاپ پہ رقص کناں ہے جھنڈ اک ٹھنڈی چھاؤں کا
ڈھول کی تھاپ پہ رقص کناں ہے جھنڈ اک ٹھنڈی چھاؤں کا
ہاڑ مہینے آن لگا ہے میلہ میرے گاؤں کا
مرے وجود میں دھرتی جیسی ہریالی بھی خشکی بھی
میں دریا کا بیٹا ہوں اور باشندہ صحراؤں کا
کتنی لوک کتھائیں میرے کمرے میں اب بکھری ہیں
رات کی رات مسافر ٹھہرا ان دیکھی دنیاؤں کا
ایک بزرگ کہا کرتے تھے ہر برسات کے موسم میں
اب کی بار نہیں ہے ویسا اندھا زور ہواؤں کا
کون تکے گا جنگل جنگل پھیلی پیلی بیلوں کو
کون سنے گا آ کر نوحہ ان سوکھے دریاؤں کا
قبرستان کے ایک مزار پہ جب سے دھاگا باندھا ہے
امیدوں کے بور سے جھورا اپنا پیڑ دعاؤں کا
رات کے سناٹے میں قاسمؔ کان لگے دروازے کو
اور گلی میں آہستہ سے بڑھتا شور کھڑاؤں کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.