دھواں گر اٹھتا ہے دل سے کہ جاں سے اٹھنے دو
دھواں گر اٹھتا ہے دل سے کہ جاں سے اٹھنے دو
مجھے نہ روکو حسینو جہاں سے اٹھنے دو
کسی کی خاک کف پا ہے کائنات مری
ستارو چھوڑو مجھے آسماں سے اٹھنے دو
تم اپنے سر پہ یہ الزام کیوں اٹھاتے ہو
وفا کا مدعا میری زباں سے اٹھنے دو
تمہارے جانے کی تدبیر بھی نکالوں گا
چراغ بجھتے ہوئے آشیاں سے اٹھنے دو
چٹان غم کی جو دل پر رکھی ہے صدیوں سے
کبھی تو درد کے آب رواں سے اٹھنے دو
میرے کفن میں بھی اک داغ تم لگا دینا
مری یہ لاش مگر آستاں سے اٹھنے دو
تمہارے تیر کو مل جائے گی جگہ کوئی
بس ایک آہ دل مہرباں سے اٹھنے دو
کہاں کا چاند کیا سورج کہاں کے سیارے
مجھے فریب کی اس کہکشاں سے اٹھنے دو
ندیمؔ وصل کی صورت نکال ہی لے گا
بدن کو پہلے ذرا درمیاں سے اٹھنے دو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.