دھوم گم گشتہ خزانوں کی مچاتا پھرے کون
دھوم گم گشتہ خزانوں کی مچاتا پھرے کون
ان زمانوں میں جو تھے ہی نہیں جاتا پھرے کون
باغ میں ان سے ملاقات کا امکان بھی ہے
صرف پھولوں کے لیے لوٹ کے آتا پھرے کون
سیکھ رکھے ہیں پرندوں نے سب اشجار کے گیت
آج کل موڈ ہی ایسا ہے کہ گاتا پھرے کون
میں تو کہتا ہوں یہیں غار میں رہ لو جب تک
وقت پوچھو ہی نہیں شہر بساتا پھرے کون
بھیس بدلے ہوئے اک شخص کی خاطر ہے یہ سب
ہم فقیروں کے بھلا ناز اٹھاتا پھرے کون
خواب یعنی یہ شب و روز جسے چاہیے ہوں
آ کے لے جائے اب آواز لگاتا پھرے کون
اختلافات سروں میں ہیں گھروں سے بڑھ کر
پھر اٹھانی جو ہے دیوار گراتا پھرے کون
- کتاب : اردو غزل کا مغربی دریچہ(یورپ اور امریکہ کی اردو غزل کا پہلا معتبر ترین انتخاب) (Pg. 573)
- مطبع : کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.