دھوپ ہی دھوپ ہے جس سمت اٹھائیں آنکھیں
دھوپ ہی دھوپ ہے جس سمت اٹھائیں آنکھیں
اب سلگتی ہوئی بینائی بچائیں آنکھیں
میں جو آئینہ بھی دیکھوں تو مخالف سے ملوں
آپ جو دیکھنا چاہیں وہ دکھائیں آنکھیں
انگلیاں کیسے کٹیں کیسے زباں گنگ ہوئی
اب یہ روداد زمانے کو سنائیں آنکھیں
جس قدر رنگ بھی ہیں دائرۂ امکاں میں
اتنے رنگوں کی بدلتی ہیں قبائیں آنکھیں
یہ نہ ہو کوئی اندھیرے کے مقابل نہ رہے
آؤ بجھتی ہوئی آنکھوں سے جلائیں آنکھیں
اس نے جاتے ہوئے مڑ کر بھی نہ دیکھا نقویؔ
دور تک دیتی رہیں جس کو صدائیں آنکھیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.