دھوپ ہو گئے سائے جل گئے شجر جیسے
دھوپ ہو گئے سائے جل گئے شجر جیسے
جم گئی ہے دھرتی پر اب کے دوپہر جیسے
زیست کے خرابے میں اک سیاہ گھر دل کا
اور دل میں یاد اس کی روشنی کا در جیسے
کیسے کیسے ہنگامے گھیرے رکھتے تھے دن رات
لگ گئی نگاہوں کو اپنی ہی نظر جیسے
یا تو آنے سے پہلے گھر کا پوچھتے احوال
آ گئے تو اب کیجے ہو گزر بسر جیسے
ایسے تکتا رہتا ہوں اس گلی کے لوگوں کو
لینے آئے گا کوئی میری بھی خبر جیسے
مدتوں میں گزرا تھا اس کے شہر سے لیکن
سب مکان لگتے تھے مجھ کو اس کے گھر جیسے
نقش گاہ ہستی میں دیکھی اپنی بھی تصویر
ایک کاغذ سادہ آنسوؤں سے تر جیسے
چاہتی ہے اب وحشت دور تک بیابانی
کاٹنے کو آتے ہیں گھر کے بام و در جیسے
مجھ سے کیا سہے جاتے ان کی بزم کے آداب
اشک مانگتے تھے وہ اشک بھی گہر جیسے
میں بھی کتنا سادہ ہوں رہ گزر پہ بیٹھا ہوں
روک لے گا وہ پاؤں مجھ کو دیکھ کر جیسے
میری خواہشیں انجمؔ جیسے ناچتی پریاں
میرا سارا مستقبل خواب کا نگر جیسے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.