دھوپ کے بھیتر چھپ کر نکلی
دھوپ کے بھیتر چھپ کر نکلی
تاریکی سایوں بھر نکلی
رات گری تھی اک گڈھے میں
شام کا ہاتھ پکڑ کر نکلی
رویا اس سے مل کر رویا
چاہت بھیس بدل کر نکلی
پھول تو پھولوں سا ہونا تھا
تتلی کیسی پتھر نکلی
سوت ہیں گھر کے ہر کونے میں
مکڑی پوری بن کر نکلی
تازہ دم ہونے کو اداسی
لے کر غم کا شاور نکلی
جاں نکلی اس کے پہلو میں
وہ ہی میرا مگہر نکلی
ہجر کی شب سے گھبراتے تھے
یار یہی شب بہتر نکلی
جب بھی چور مرے گھر آئے
ایک ہنسی ہی زیور نکلی
آتشؔ کندن روح ملی ہے
عمر کی آگ میں جل کر نکلی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.