دھوپ کو چھاؤں لکھوں سنگ کو شیشہ لکھوں
دھوپ کو چھاؤں لکھوں سنگ کو شیشہ لکھوں
مصلحت کا ہے تقاضا تجھے اچھا لکھوں
کون ہے میری تباہی کا سبب کیا لکھوں
میرا خامہ ہے بضد نام تمہارا لکھوں
جستجو میری سفر ہی میں رہے گی کب تک
اب تو مل جائے کوئی جس کو میں اپنا لکھوں
بے غرض مجھ پہ نہیں کرتے کرم اہل کرم
اور غرض یہ ہے کہ میں ان کا قصیدہ لکھوں
میں نے بیچا ہے نہ بیچوں گا کبھی اپنا ضمیر
غیر ممکن ہے کہ قطرہ کو میں دریا لکھوں
خود ابھر آئے گی قرطاس پہ نایاب غزل
روبرو بیٹھ کہ میں تیرا سراپا لکھوں
اپنے ماضی کا قصیدہ تو بہت لکھا حبیبؔ
دل میں آتا ہے کہ اب حال کا نوحہ لکھوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.